موسمی حالات کی وجہ سے خوردنی تیل کی کمی اور تیل کے امپورٹ بل میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے،ڈاکٹر فتح محمد مری
سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمدمری نے کہا ہے کہ پاکستان میں تیلی فصلوں کے رقبے میں کمی اور موسمی حالات کی وجہ سے پیداواری مسائل میں اضافہ ہوا ہے، جس سے خوردنی تیل کی کمی اور تیل کے امپورٹ بل میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بات انہوں نے شعبہ پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس کے اسکالر ماجد حسین کلیری کے “پانی میں کمی کے حالات میں پیداوار اور تیل کی خصوصیات کے لیے سورج مکھی کے ہائبرڈز کی تشخیص” کے زیرعنوان پی ایچ ڈی سیمینار کے دوران اپنے ریمارکس کے دوران کہی، ڈاکٹر فتح محمد مری نے کہا پاکستان میں خوردنی تیل کی درآمد پر، پیٹرولیم کے بعد دوسرے نمبر پر زیادہ سرمایہ خرچ ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال کے پہلے 11مہینوں کے دوران پاکستان کی کوکنگ آئل کی درآمدات 3.56بلین ڈالر تک پہنچ گئیں تھیں اور خوردنی تیل کی مد میں پاکستان کی گھریلو مانگ پورا کرنے کے لیے خوردنی تیل اور تیل کے بیجوں کی درآمدات پر انحصار گزشتہ دو دہائیوں سے بڑھ رہا ہے ۔
پی ایچ ڈی اسکالر ماجد حسین کلیری نے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ سورج مکھی کی مختلف اجناس کا مختلف علاقوں میں خشک اور نمی والی زمینوں پر تجربہ کیا گیا جس میں کم پانی پر بہتر پیداواری نتائج حاصل ہوئے ہیں جبکہ سورج مکھی میں نئی اجناس کیلئے تحقیقی کام کی گنجائش بھی موجود ہے۔ اس موقع پر ڈین ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر، ڈین ڈاکٹر اعجاز علی کھوہارو، ڈین ڈاکٹر غیاث الدین شاہ راشدی، ڈین ڈاکٹر منظور علی ابڑو، ڈاکٹر ظہور احمد سومرو، نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف ایگریکلچر کے ڈئریکٹر محبوب سیال، ایرڈ ریسرچ سینٹر عمرکوٹ کے ڈائریکٹر محمد صدیق ڈیپر، ڈائریکٹر ایڈوانسڈ اسٹڈیز ڈاکٹر عبدالمبین لودھی، چیئرمین پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس ڈاکٹر شاہنوار مری، ڈاکٹر واجد جتوئی، نامور زرعی ماہر کرم خان کلیری ، اساتذہ، طلبا اور ماہرین کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔