اس وقت پاکستان پانی کی کمی کا شکار ملک ہے،زرعی ماہرین
زرعی ماہرین اورسائنسدانوںکا کہناہے کہ اس وقت پاکستان پانی کی کمی کا شکار ملک ہے، پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کو فی کس پانی کی دستیابی کے لحاظ سے ریڈ زون میں رکھا گیا ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار بن چکا ہے کیونکہ اس مسئلے سے نمٹنا ہی اصل چیلنج ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے زرعی شعبے کو نہ صرف نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ اس کی وجہ سے ہماری روایتی زرعی نظام بے شمار مسائل سے دوچار ہوچکا ہے ، پاکستان میں پیدا ہونے والی گندم کا تقریباً 76 فیصد پنجاب پیدا کرتا ہے۔ فصل کے اعدادوشمار کی روایتی رپورٹنگ فصل کی کٹائی کے بعد ہفتوں سے مہینوں کی تاخیر کا شکار ہوتی ہے قیام پاکستان کے وقت فی کس پانی کی دستیابی 5600 کیوبک میٹر تھی جو کہ کم ہو کر 900 کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔
ہمیں عوامی سطح پر پانی کے متناسب اور بچت پر مبنی پروگرام شروع کرنے کے لیے آگاہی مہم چلانا ہوگی اور پانی کے معقول استعمال کو فروغ کے لیے اقدامات بروئے کار لانا ہوں گے آن لائن کے مطابق گذشتہ روز ز رعی یونیورسٹی فیصل آباد میں منعقدہ بین الاقوامی تربیتی ورکشاپ برائے پیداواریت کا تخمینہ آبپاشی کی مقدار اور ریمورٹ سینسنگ کے استعمال سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ جدید رجحانات کو اپنائے بغیر پاکستانی زراعت کو بین الاقوامی مسابقتی نظام سے ہم آہنگ نہیں کیا جاسکتا۔
اس مقصد کے لیے فصل کے رقبہ اور پیداوار کے تخمینے کے لیے ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی کو اپنانے کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے نظام کو طلب سے رسد میں تبدیل کرنے کے لیے واٹر مارکیٹ متعارف کرانا ہوگی۔ورکشاپ کا انعقاد یونیورسٹی کی پریسئن ایگریکلچر ، این سی بی سی و موسمیاتی تجربہ گاہ کے زیر اہتمام کیا گیاتھا۔ زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر آصف کامران نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کو فی کس پانی کی دستیابی کے لحاظ سے ریڈ زون میں رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت فی کس پانی کی دستیابی 5600 کیوبک میٹر تھی جو کہ کم ہو کر 900 کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں عوامی سطح پر پانی کے متناسب اور بچت پر مبنی پروگرام شروع کرنے کے لیے آگاہی مہم چلانا ہوگی اور پانی کے معقول استعمال کو فروغ کے لیے اقدامات بروئے کار لانا ہوں گے ۔ ڈاکٹر آصف کامران نے کہا کہ آبپاشی کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر قطرے کو زیادہ پیداواریت کا حامل بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جدید زراعت کے معیارات کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ عالمی اقتصادی اور موسمی تبدیلیوں کے مقابلہ میں مسابقتی اور پائیدار یت کی حامل ٹیکنالوجیز کو رواج دینا ہوگا۔ ڈائریکٹر جنرل ایوب ریسرچ ڈاکٹر محمد نواز خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے زرعی شعبے کو نہ صرف نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ اس کی وجہ سے ہماری روایتی زرعی نظام بے شمار مسائل سے دوچار ہوچکا ہے۔ انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ قومی سطح پر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جدید رجحانات کی موافقت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ محکمہ پلاننگ اینڈ انوائرنمنٹ، گورنمنٹ آف نیو ساؤتھ ویلز، آسٹریلیا کے لیڈ ریموٹ سینسنگ سائنسدان ڈاکٹر عظیم خان نے کہا کہ پاکستان پانی کی کمی کا شکار ملک ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اسٹریلیا کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے واٹر ہارویسٹنگ کے ساتھ ساتھ فی قطرہ آبپاشی کے رجحانات کو اس طرح متعارف کرایا جائے جس سے غیر استعمال شدہ زمینوں کو زیر کاشت لا کر وافر مقدار میں فصلات پیدا کی جاسکیں۔ انہوں نے کہا کہ سیٹلائٹ ریموٹ سینسنگ کے ذریعے ملک میں پانی کی دستیابی اور استعمال کے بارے میں شفاف معلومات نہ صرف پانی کے انتظام کے مقاصد بلکہ نظام کی بہتری کی ضروریات کی نشاندہی اور سرمایہ کاری کے فیصلوں کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوں گی۔ بڑے ڈیٹا، ریموٹ سینسنگ، کنیکٹیویٹی، اور مصنوعی ذہانت کا سنگم ہمارے آبی وسائل کو پائیدار طریقے سے منظم کرنے اور فصلوں کے پانی کی پیداواری صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ میں گلوبل لینڈ اسسمنٹ اینڈ ڈسکوری لیبارٹری کے شریک ڈائریکٹر پروفیسر میتھیو ہینسن نے کہا کہ ان کی لیب لینڈ سیٹ کے مکمل وراثتی ٹائم سیریز ڈیٹا کی میزبانی کرتی ہے، اور پری پروسیسنگ اور ریڈیو میٹرک کو لاگو کرکے تجزیہ ریڈ ڈیٹا (ARD) تیار کیا ہے۔ نارملائزیشن GLAD ٹیم ڈیٹاسیٹ کا اطلاق مختلف عالمی سطح پر زمین کے احاطہ اور زمین کے استعمال میں تبدیلی کی تشخیص پر کرتی ہے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ، آسٹریلیا کے محقق ڈاکٹر احمد خان نے کہا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی گندم کا تقریباً 76 فیصد پنجاب پیدا کرتا ہے۔ فصل کے اعدادوشمار کی روایتی رپورٹنگ فصل کی کٹائی کے بعد ہفتوں سے مہینوں کی تاخیر کا شکار ہوتی ہے۔ تاخیر سے ہونے والا پیداواری ڈیٹا سیزن میں فیصلہ سازی کے سپورٹ سسٹم میں حصہ نہیں ڈال سکتا۔ ڈاکٹر خالد حسین نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار بن چکا ہے کیونکہ اس مسئلے سے نمٹنا ہی اصل چیلنج ہے۔