لاہور چیمبر برکی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کا اجراء
برکی انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں اپنی رپورٹ “اسٹیٹ آف دی اکانومی، فرنٹ لائن سٹیک ہولڈرز، ریپنگ دی جینڈر ڈیویڈنڈ” کا اجراء کردیا ہے۔ اس موقع پر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدرکاشف انور، نائب صدر عدنان خالد بٹ، چیف سیکرٹری پنجاب عبداللہ خان سنبل، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر، چیئرمین برکی انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی ڈاکٹر شاہد جاوید برکی، وائس چیئرمین ڈاکٹر شاہد نجم ،سیکرٹری ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سمیرا صمد، سید یاور علی، چیئرپرسن بنیاد فاؤنڈیشن شاہدہ شاہین عتیق الرحمن، ڈاکٹر فرخ اقبال اور لاہور چیمبر کے سابق نائب صدر ذیشان خلیل نے خطاب کیا۔ چیف سیکریٹری پنجاب عبداللہ خان سنبل نے کہا کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی و معیشت میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کے لیے کاوشیں تیز کرنے کی ضرورت ہے، بالخصوص معیشت میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی آبادی کی منصوبہ بندی اور صنفی مساوارات کے شعبوں میں عملی طور پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی میں ریاست کا کردار بہت اہم ہے، بیوروکریسی دوسرے سٹیک ہولڈرز کی مدد کے بغیر تنہا نہیں چل سکتی ۔ شاہد نجم نے کہا کہ صنفی برابری کے لیے اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ صنفی مساوات کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں پاکستان صرف افغانستان سے اوپر ہے جو بدقسمتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان آبادی کے حوالے سے ہمارے پاس جو صلاحتیں ہیں وہ ہم ضائع کررہے ہیں۔ ڈاکٹر فرخ اقبال نے معاشی صورتحال پر پریزنٹیشن دیتے ہوئے کہا کہ 2008ء کے بعد یہ تیسرا موقع ہے کہ ہمارے پاس دوماہ کی درآمدات سے بھی کم زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی و معاشی صورتحال کے پیش نظر ہمیں ایک ہی مسئلے کا بار بار سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز پاکستان کو درپیش سنگین معاشی بحران سے آگاہ ہیں جس میں ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، تجارتی خسارہ، بلند افراط زر، کرنسی کی قدر میں کمی، بڑھتے ہوئے قرضوں اور اعلیٰ پالیسی ریٹ وغیرہ کی وجہ سے ادائیگیوں کے خسارے کا نامناسب توازن شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سال 2021-22ء میں تجارتی خسارہ 48ارب ڈالر سے زائد رہا، جون 22ء سے مہنگائی کی شرح مسلسل 20فیصد سے زائد رہی ہے جس کی بنیادی وجوہات میں شرح مبادلہ میں کمی، درآمدی اشیائ/خام مال/مشینری/تیل پر انحصار اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ دنوں میں بڑے پیمانے پر روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ انٹر بینک ڈالر کی شرح 226 روپے سے تجاوز کر گئی ہے، چونکہ ہماری صنعت خام مال، پرزہ جات اور مشینری کی درآمد پر انحصار کرتی ہے، اس قدر میں کمی کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق ستمبر 2022 تک پاکستان کے کل بیرونی قرضے اور واجبات 126.9 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، یہ صورتحال فوری اقدامات کی متقاضی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 16فیصد پالیسی ریٹ خطے کی دیگر معاشیات کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے، ہمسایہ ممالک میں پالیسی ریٹ پاکستان سے کافی کم ہیں لہذا ہمیں بھی اسے کم کرنا ہوگا۔ انہوں نے برکی انسٹی ٹیوٹ آ ف پبلک پالیسی کی رپورٹ کو سراہا اس اس کی تجاویز پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا۔