اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس میں عدالت کے روبرو پیش ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔وزیراعظم شہبازشریف عدالت میں پیش ہوئے ، شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کےسخت انتظامات کئے گئےاسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف تمام راستےبند ہے اور کمرہ عدالت میں غیر متعلقہ افراد کا بھی داخلہ بند ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیر اعظم کو روسٹرم پر بلایا، چیف جسٹس نے شہباز شریف سے مکالمے میں کہا کہ اس عدالت نے آپ کو تکلیف اسی لئے دی کیونکہ ایک بہت بڑامسئلہ ہے، یہ کیس بہت عرصے سے چلتا آرہاہے، آپ کو اس لیے عدالت آنے کی تکلیف دی کہ اس مسئلے کاحل نکالاجائے۔عدالت کا کہنا تھا کہ ایک چیف ایگزیکٹو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ لوگوں کو اٹھایا، یہ آئینی عدالت ہےاورسویلین بالادستی پر یقین رکھتی ہے، اسٹیٹ کے اندراسٹیٹ نہیں ہوسکتی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت نےاس معاملے کوکئی باروفاقی کابینہ کوبھیجا، آپ کو معاملہ بھیجاآپ نےکمیٹی بنائی، وزیر اعظم صاحب یہ معاملہ کمیٹی کا نہیں ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے اس سے بڑا ایشو اور کوئی نہیں ، سیاستدانوں نےملکراس مسئلے کا حل نکالناہے، اس عدالت نے مناسب سمجھا کہ آپ کو بتایا جائےکہ مسئلہ کیا ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لیے کمیشن بنا مگراس کاطریقہ کاربڑاپریشان کن ہے،لاپتہ افرادکمیشن کی سماعتوں سےان خاندانوں کےدکھوں میں اضافہ ہوا، ان لوگوں کوچاہیےتھا کہ ان میں سےکوئی اس عدالت نہ آتا، ریاست کی ذمہ داری ہےکہ وہ ہرایک کے گھر خود جاتے۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا کہ یہاں پر لوگ بازیاب ہوئے مگر کوئی ایکشن نہیں ہوا،میرے خیال میں اس سے بڑا کوئی بھی ایشونہیں ہے،جتنے نیشنل سیکیورٹی مسائل ہیں اتنے ہی ہر شہری کے ہیں، شہری یہ کیوں محسوس کرے کہ ریاست ہی تحفظ نہیں کررہی۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹوکاکام ہے کہ شہریوں کاتحفظ یقینی بنائے، ٹارچر کی سب سے بڑی قسم شہریوں کا لاپتہ ہوناہے،یا تو آپ کو کہنا پڑے گا کہ آئین اپنی حالت میں بحال نہیں، اگر یہ بات ہے کہ تو پھر اس عدالت کو کسی اور کو بلانا پڑے گا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگیاں آئین سےانحراف ہے، اس عدالت کو اچھا نہیں لگتا کہ منتخب وزیراعظم کو بلائے ، سیلاب کی تباہ کاریوں سےمتعلق کاموں میں آپ مصروف ہوں گے ، لیکن ان کا احتساب کیا جائے جو قانون سے بالاتر کام کرتے ہیں، گورننس کےمسائل تب حل ہونگےجب آئین اپنی حالت میں بحال ہو۔وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ، اٹارنی جنرل بھی عدالت پیش ہوئے ،عدالت نے کہا کہ اس عدالت کا آپ پر اعتمادہےکہ آپ اس کاحل بتائیں، ایک چھوٹابچہ اس عدالت آتاہے، یہ عدالت اسے کیا دے، بدقسمتی سےاس بچے کو پچھلے وزیر اعظم کےپاس بھیجا مگر کچھ نہیں ہوا، وزیر اعظم صاحب آپ اس مسئلے کاحل بتائیں کہ یہ عدالت کیا کرے